Bottom Article Ad

Breaking

Wednesday, December 28, 2022

Quaid-e Azam last days of life

 


یہ 14 جولائی 1948 کا دن تھا جب اس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو ان کی علالت کے پیش نظر کوئٹہ سے  زیارت منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ فقط 60 دن زندہ رہے اور 11 ستمبر 1948 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کو بتایا کہ انھیں تب دق کا مرض لاحق ہے تو جناح نے جواب دیا: ’ڈاکٹر، یہ تو میں 12 برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہندو میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔‘ برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنّفین نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک بالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے ماؤنٹ بیٹن نے خاصے طویل عرصے بعد لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ساری طاقت جناح کے ہاتھ میں تھی۔ ’اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ وہ بہت کم عرصے میں ہی فوت ہوجائیں گے تو میں ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا۔ یہ واحد صورت تھی کہ ہندوستان متحدہ صورت میں برقرار رہتا۔ راستے کا پتھر صرف مسٹر جناح تھے، دوسرے رہنما اس قدر بے لوث نہیں تھے اور مجھے یقین تھا کہ کانگریس ان لوگوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی اور پاکستان تاقیامت وجود میں نہ آتا۔‘تیس جولائی 1948 کو جناح کے یہ تمام معالجین زیارت پہنچ گئے۔ اس سے ایک دن پہلے بابائے قوم کی دیکھ بھال کے لیے کوئٹہ سے ایک تربیت یافتہ نرس، فلس ڈلہم کو بھی زیارت بلوایا جا چکا تھا۔ اب خدا خدا کرکے جناح کا باقاعدگی سے علاج شروع ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ اسی دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس پر اب تک خاموشی کے پراسرار پردے پڑے ہوئے ہیں اور جو لوگ اس سے واقف بھی ہیں ان کا یہی اصرار ہے کہ اس واقعے کو اب بھی راز ہی رہنے دیا جائے۔یہ واقعہ سب سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’مائی برادر‘ میں قلم بند کیا تھا۔ محترمہ نے اپنی اس کتاب میں لکھا: ’جولائی کے اواخر میں ایک روز وزیراعظم لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک زیارت پہنچ گئے۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے پوچھا کہ جناح کے مرض کے بارے میں ان کی تشخیص کیا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ انھیں فاطمہ جناح نے بلایا ہے اور وہ اپنے مریض کے بارے میں صرف ان ہی کو کچھ بتا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے اصرار کیا کہ وہ بطور وزیراعظم، گورنر جنرل کی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں لیکن تب بھی ڈاکٹر الٰہی بخش کا مؤقف یہی رہا کہ وہ اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ نہیں بتاسکتے۔‘ فاطمہ جناح آگے لکھتی ہیں: ’میں اس وقت بھائی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب مجھے بتایا گیا کہ وزیراعظم اور کابینہ کے سیکریٹری جنرل ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کی اطلاع بھائی کو دی تو وہ مسکرائے اور بولے، فاطی! تم جانتی ہو وہ یہاں کیوں آیا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میری بیماری کتنی شدید ہے اور یہ کہ میں اب کتنے دن زندہ رہوں گا۔‘ چند منٹ بعد انھوں نے اپنی بہن سے کہا: ’نیچے جاؤ۔۔۔ وزیراعظم سے کہو میں اس سے بھی ملوں گا۔‘ فاطمہ جناح نے بھائی سے گزارش کی کہ ’بہت دیر ہوچکی ہے، آپ ان سے صبح مل لیجیے گا۔‘ مگر جناح نے حکم دیا ’نہیں۔۔۔ اسے ابھی آنے دو، وہ خود آخر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔‘ وہ لکھتی ہیں: ’دونوں کی ملاقات آدھے گھنٹے جاری رہی۔ جونہی لیاقت علی خان واپس نیچے آئے تو میں اوپر اپنے بھائی کے پاس گئی۔ وہ بری طرح تھکے ہوئے تھے اور ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پھلوں کا جوس مانگا اور پھر چوہدری محمد علی کو اندر بلوا لیا جو 15 منٹ تک ان کے پاس رہے۔ پھر جب وہ دوبارہ تنہا ہوئے تو میں اندر ان کے پاس گئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ جوس یا کافی کچھ لینا پسند کریں گے مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں محو تھے۔ اتنے میں رات کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ بھائی نے مجھ سے کہا ’بہتر ہے کہ تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘ ’نہیں،‘ میں نے زور دے کر کہا، ’میں آپ ہی کے پاس بیٹھوں گی اور یہیں پر کھانا کھالوں گی۔‘ ’نہیں،‘ بھائی نے کہا، ’یہ مناسب نہیں ہے۔ وہ یہاں ہمارے مہمان ہیں، جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘ اس کے بعد فاطمہ جناح لکھتی ہیں: ’کھانے کی میز پر میں نے وزیراعظم کو بہت خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ لطیفے سنا رہے تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے جبکہ میں بھائی کی صحت کے لیے خوف سے کانپ رہی تھی جو اوپر کی منزل میں بستر علالت پر پڑے ہوئے تھے۔ کھانے کے دوران چوہدری محمد علی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہے۔ کھانا ختم ہونے سے پہلے میں اوپر چلی گئی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو بھائی مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے ’فاطی، تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔‘ میں نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی بڑی کوشش کی جو میری آنکھوں میں امڈ آئے تھے۔‘؟

No comments:

Post a Comment