Bottom Article Ad

Breaking

Thursday, December 29, 2022

Painful story of captain qadeer shaheed/Markhor ISI Hero



کیپٹن قدیر کون تھے؟انہیں کونسا مشن دیا گیاتھا؟وہ کیسے شہید ہوئے اور انہیں انکی ماں کیوں نہ پہچان سکی یہی ہماری ویڈیو کا موضوع ہے۔کیپٹن قدیر کا تعلق ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تھا- خود کیپٹن قدیر 300 ایکٹر قابل کاشت اراضی کا ذاتی مالک تھا۔ سونے کا چمچمہ منہ میں لئے پیدا ہونے والا یہ جوان جب بڑا ہوا تو وطن عزیز کی حفاظت کیلئے پاک فوج میں بھرتی ہوگیا- اس کے رشتے داروں نے اس پر طنز کیا کہ جب روپیہ پیسہ کی گھر میں ریل پیل ہے تو نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے تنخواہ پر نوکر بن رہے ہو- یہ سن کر کیپٹن قدیر کا خون جوش مارنے لگا اور چیخ کر کہا فوجی تنخواہ کے لیے بھرتی نہیں ہوتا ہے فوجی تو وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر بنتے ہیں اور میں اس ملک پر اپنا تن من دھن سب قربان کر دوں گا- یہی جذبہ لے کر یہ نوجوان فوج میں سیکنڈ لیفٹینٹ بھرتی ہوتا ہے مقابلہ کا امتحان پاس کر کے اور ترقی کر کے کیپٹن بن جاتا ہے- اس کا جذبہ دیکھ کر اسے خفیہ ایجنسی ملٹری انٹیلی جینس میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر مزید اسے بلوچستان خفیہ مشن پر بھیج دیا جاتا ہے- اس کے ذمہ مشن لگتا ہے کہ بلوچستان میں را کا نیٹ ورک تلاش کرنا ہے اور دہشتگردوں کو ختم کرنا ہے – را کے نیٹ ورک کو تلاش کرنے کے لئے مٹی کی محبت میں یہ جنونی انسان جس نے اپنی ساری جوانی نرم گرم بستروں پر گزاری، جہاں گھر میں نوکر چاکر کی بھرمار تھی ایک ایک چیز بستر پر نوکر چاکر آرڈر پر لے آتے مگر آفرین ،آفرین اس شیر دل ہیرو پر کہ اپنے دیس کو دشمنوں سے بچانے کے لئے یہ جنونی کوڑا چننے والا بن جاتا ہے اور پورے تین سال یہ جنونی بلوچستان کے مخلتف شہروں میں فقیر بن کر کوڑا چنتے چنتے گزار دیتا ہے- اس کا بستر بھی کوڑا کرکٹ کا ڈھیر وہی اس کا کھانا پینا سخت ترین سردیوں میں یہ جنونی ایک انتہائی بدبودار پھٹے پرانے کمبل میں کھلے آسمان تلے گزارتا ہے صرف دیس کی حفاظت کیلئے ۔ آخر اس کی محنت رنگ لاتی ہے اور یہ را کے بہت بڑے نیٹ ورک کلبھوشن تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے-جی ہاں دوستو کلبھوشن جیسے مشہور ومعروف دہشتگرد کو پکڑنے کے پیچھے اس جنونی مار خورکیپٹن قدیر کی تین سال کی محنت ہوتی ہے اور ماہ رمضان کے آغاز میں سلمان نامی دہشت گرد جس کو مارتے مارتے ہمارے کرنل سہیل خود شہید ہوگئے تھے اس کی اطلاع دینے والا بھی یہی مار خور تھا۔آ ج بلوچستان میں جو امن وامان قائم ہوا ہے تو اس کے پیچھےبھی اس جنونی نوجوان کا بہت بڑا کردار ہے- کیپٹن قدیر کے اتنے بڑے بڑے کارنامے ہیں کہ لکھنے کے لئے کتابیں کم پڑ جائیں- یہ کیسا انسان تھا 300 ایکڑ اراضی کا مالک شخص کس طرح 3 سال کوڑا چننے والا فقیر بنا رہا ۔کس طرح بدبودار کمبل میں اس نے 3 سال گزار دیے- ایسے لوگ انسان ہرگز نہیں ہوسکتے یہ فرشتہ تھا کیپٹن قدیر نے خود یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک بار مجھ سے کسی نے پوچھا کون ہو آپ ؟ میں نے جواب دیا میں وہ فقیر ہوں جسکو اپنی ماں نے نہیں پہچانا ۔ایک دن میں اسی لباس میں آیا اور گھر کے سامنے بیٹھ گیا تو بھائی نے دیکھا اور آواز دی ماں ایک فقیر آیا ہے باہر کھانے کو کچھ دو، تب ماں نے سامنے روٹی رکھ دی اور کہا فقیر دعا کرنا میرے بیٹے کےلیے۔ میں نے سوال پوچھا :بیٹا کیا کرتا ہے؟ماں کی انکھوں کا ضبط ٹوٹا اور آنسوؤں کے پیمانے چھلک گئے ۔ رندھی ہوئی آواز میں کہا آرمی میں ہے ۔لیکن کوئی پتہ نہیں ہوتا بہت کم رابطہ کرتا اور یہی بات بولتا ہے ماں اگر میں لوٹ کر واپس نہیں آیا تو سمجھ لینا، مجھ سے اس وطن کی مٹی کے تحفظ کی قسم نےجان مانگی اور اس سر زمین نے گود میں لے لیا ہوگا۔ ماں رونے لگتی ہے تو میں نے کہاں ماں جی جن ماؤں کے بیٹے وطن پر قربان ہوجاتے ہیں وہ مائیں بھی بہت عظیم ہوتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ماں نے مجھے نہیں پہچانا تھا اور نہ ہی میں نے بتایا۔ ماں کی انکھوں کا آنسو آج بھی میں نہیں بھول پایا۔ اللہ کی قسم نجانے ایسی کتنی ماؤں کے بیٹے اس وطن کے لیے قربانی دے رہے ہیں ۔کیپٹن قدیر شہید ایک مشن سے گھر واپس لوٹ رہے کہ راستے میں ایک ایکسیڈینٹ میں شہید ہوگئے تھے۔شہید کیپٹن قدیر جیسے مجاہدوں کے مٹی سے اٹے بوٹ ہماری قوم کا فخر ہیں، اسکا جذبہ ہماری سلامتی اور بقا کی امید ہے ۔ اپنی عظیم فوج پر ناز کرنے والا کیپٹن قدیر اس دور میں خاموشی سے ملکی بقا کی جنگ لڑتا رہا، جب فوج کو بیرونی دشمن ہی نہیں، ملک کے اندر بھی مخالفین، حاسدوں اوردشمنوں کا سامنا تھا۔اورآج بھی یہ جنگ جاری ہے۔۔لیکن انشاللہ فتح پاکستان کی ہوگی۔۔پاک فوج کی ہوگی۔

No comments:

Post a Comment